sharam aur Haya Quran and hadith


پردہ، حجاب اور شرم و حیا ، قرآن و حدیث کی روشنی میں



پردہ کی اسلام میں خصوصی اہمیت بیان کی گئی ہے اور مرد وزن کو ستر پوشی کے ساتھ شرم و حیا کو بھی مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا یہی وجہ ہے کہ مرد کے لئے کسی بھی عورت پر دوسری نگاہ ڈالنا جائز نہیں، نبی کریمؐ بھی بہت شرم وحیا والے تھے اور آپؐ نے دوسروں کو بھی اس کا درس دیا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ آپؐ پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھے۔جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپؐ کو ناگوار گزرتی تو ہم لوگوں کو آپؐ کے چہرے سے معلوم ہو جاتا۔‘‘ صحیح بخاری، جلد سوم، حدیث نمبر 1055۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کریمؐ کے ارشادات اور احکامات پر عمل پیرا ہونا ہی دین اسلام ہے جو مومنین اور مومنات کو حجاب یعنی پردے کے حوالے سے سختی کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیاجو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے(۱) اور تقویٰ کا لباس (۲) یہ اس سے بڑھ کر (۳) یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں‘‘ سورۃ الاعراف، آیت نمبر 26،۔ اس حوالہ سے قرآن پاک میں ایک اور جگہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیںاور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے کہ جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیںاور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے بہن، بھائیوں اور بچوں کے۔
خواتین کو مستورات بھی کہا جاتا ہے اور مستور کا مطلب ہے چھپا ہوا، عورت کے پردہ کے حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ’’حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیوں کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لئے موقع تلاش کرتا ہے‘‘ جامع ترمذی،جلد نمبر اول ، حدیث نمبر 1181۔ عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے۔ ’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘ سنن ابو دائود، جلد نمبر اول، حدیث نمبر 567۔ یعنی عورت جس قدر بھی پردہ کرے گی اسی قدر بہتر ہے، صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جیسے کسی بھی مرد کا کسی خاتون پر نظر ڈالنا درست نہیں اور پہلی نظر کی معافی کے بعد دوسری نگاہ ڈالنے سے منع کیا گیاہے ایسے ہی خواتین کو بھی حکم ہے کہ وہ مردوں پر نظر نہ ڈالیں، اس حوالہ سے حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے پاس تھی اور آپؐ کے پاس حضرت میمونہؓ بھی تھیں۔ سامنے سے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (جو نابینا تھے) تشریف لائے اور یہ واقعہ پردہ کا حکم دیئے جانے سے بعد کا ہے، حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ان سے تم دونوں پردہ کرو، ہم نے عرض کیا یارسول اللہؐ کیا یہ نابینا نہیںہیں؟حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو انہیں نہیں دیکھتی ہو‘‘ سنن ابو دائود، جلد نمبر سوم، حدیث نمبر 720۔ تو اس حدیث سے ثابت ہے کہ خواتین کو بھی مردوں سے پردہ کرنا چاہئے اور نگاہ نہیں ڈالنی چاہئے چاہے وہ مرد بصارت سے محروم ہی کیوں نہ ہو۔
اسلام میں کسی کے گھر بلااجازت نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں، اس سلسلہ میں مذکورہ حدیث شریف میں بیان ہے ’’حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جس نے اجازت ملنے سے پہلے پردہ اٹھا کر کسی کے گھر میں نظر ڈالی گویا کہ اس نے گھر کی چھپی ہوئی چیز دیکھ لی اور اس نے ایسا کام کیا جو اس کے لئے حلال نہیں تھا ۔ پھر اگر اندر جھانکتے وقت کوئی اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا تو میں اس پر کچھ نہ کہتا ( یعنی بدلہ نہ دلاتا) اور اگر کوئی شخص کسی ایسے دروازے کے سامنے سے گزرا جس پر پردہ نہیں تھا اور وہ بند بھی نہیں تھا پھر اس کی گھر والوں پر نظر پڑ گئی تو اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں بلکہ گھر والوں کی غلطی ہے‘‘ جامع تر مذی، جلد دوم، حدیث نمبر 618،
حضرت جریر بن عبداللہ الحجلی ؓ فرماتے ہیں کہ محرم عورت پر نظر پڑ جائے تو اس کا کیا حکم ہے تو نبی کریمؐ نے فرمایا… اپنی نظر کو پھیر لو، اچانک اگر کسی نامحرم عورت پر نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے لیکن اگر میں نے حضور نبی اکرمؐ سے دریافت کیا کہ اگر اچانک کسی غیر دوبارہ جان بوجھ کر اس کی طرف دیکھے گا تو گنہگار ہو گا۔ستر پوشی یعنی پردہ دین اسلام میں نہایت ضروری ہے۔ مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک، اتنی جگہ کو ننگا نہ ہونے دینا چاہیے اور اگر کوئی برہنہ ہو تو اس کی طرف دیکھنا نہیں چاہئے، تنہائی میں بھی بے پردہ ہونے کی اجازت نہیں، اللہ تعالی اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے شرم کی جائے، اسی طرح نامحرم عورت کا سارا بدن (ہاتھ اور چہرہ کے سوا) ستر ہے۔ نفسا نفسی کے اس دور میں جبکہ لوگوں کی آنکھوں میں حیا نہیں رہی، ہر طرف آوارگی اور بیہودگی کا دور دورہ ہے، ٹی وی، کیبل اور انٹرنیت وغیرہ پر غیر مذاہب یہود و نصاریٰ کی ثقافت نے ملت اسلامیہ پر عارضی طور پر غلبہ پا لیا ہے۔ قارئین کرام! آیت کریمہ میں آنکھوں کو ہر وقت اور بلاوجہ بند رکھنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اُس کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنے سے روکا گیا ہے۔ نبی کریمؐ نے بڑی سختی سے نامحرم عورت کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا ہے، اس سلسلہ میں ہمیں ان ارشادات نبویؐ پر غور کرنا چاہیے جن میں آپؐ اپنی امت سے مخاطب ہیں کہ ’’اگر تم میرے ساتھ یہ وعدہ کرو کہ جب تم میں سے کوئی بات کرے تو جھوٹ نہ بولے، جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت نہ کرے، ہر حال میں اپنے وعدے کی پاسداری کرے، اپنی نگاہوں کو نیچی رکھے، اپنے ہاتھوں کو روکے رکھے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرے تو میں تمہارے لئے بہشت کا ضامن ہوں۔ مسلم اُمہ کے ہر شخص کا فرض منصبی ہے کہ جس کی نگاہوں میں شرم و حیا اور عصمت کی کوئی قدر و منزلت ہے کہ وہ اپنی جوان بہو، بیٹیوں کو بے مقصد،بے پردہ باہر نکلنے سے روکیں اور وہ نامحرموں کے سامنے بے تکلفی سے آنے سے اجتناب کریں۔

Comments

Popular Posts