EISHQ E RASOOL AUR USKE TAQAZE


  • عشق رسول عربی اور اسکے تقاضے



آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت دین وایمان کا جزء ہے ،دنیوی واخروی فلاح وکامیابی کا 
ضامن ہے ،جہنم اوراس کے درد ناک عذاب سے گلوخلاصی کے لئے اولین شرط ہے ،محبت رسول سے ایمان کی حلاوت اورچاشنی نصیب ہوتی ہے ،جنت میں نبی کی رفاقت ومعیت حاصل ہوتی ہے،حب رسول ایک سچے مسلمان کی فطرت کا اٹوٹ حصہ ہے ،مومن کے دل کی آرزو اور اس کی ضمیر کی آوازہے،عشق رسول یہ وہ متاع گراں مایہ ہے جو صحابہ کرام کے حصہ میں آئی تو ان میں سے ہر فرد اپنے عہد کا گل سرسبد ،مینارہ نور اورنوع انسانی کے لئے باعث شرف وافتخار بنا ،یہ وہ مئے ہے کہ اس کے جام لبریز سے جس نے بادہ گساری کی وہ دنیا میں آفتاب وماہتاب بن کر چمکا ،اورپوری دنیا کو اپنی ضیاپاشی سے منور کیا ،یہ وہ سرور آفریں نشہ ہے کہ جو اس سے سرشار ہوا اس نے محبت وعرفان کے مدارج تیزگامی سے طئے کیے ،اورفطر ت کے اسرار ورموز اس پر منکشف ہوئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت رکھنا اسلام میں مطلوب ہے ،اورہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے،اس کے بغیر مسلمان کا ایمان ناقص ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین ،(بخاری ،حدیث نمبر:۱۴)تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ،اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ،جو شخص رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح معنوں میں محبت کرتاہے اسے نہ صرف اخروی نجات حاصل ہوگی ؛بلکہ وہ جنت میں آپ ﷺ کی رفاقت ومعیت سے بھی سرفراز ہوگا ،چنانچہ مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر 
ہوا ،اوراس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! قیامت کب آئے گی ؟آپ ﷺ نے فرمایا :تم نے قیامت کیلئےکیا تیاری کی
ہے ؟اس شخص نے کہا :اللہ اوراس کے رسول کی محبت،آپ ﷺ نے فرمایا:تم اس کے ساتھ ہوگے  سے تم کو محبت ہوگی ۔(بخاری شریف ،حدیث نمبر:۶۱۷۱)آپ ﷺ سے سچی محبت اورآپ سے قلبی لگاؤ سب سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو تھا،صحابہ کرامؓ سے زیادہ نبی اکر م ﷺ سے محبت کرنے والے نہ پیدا ہوئے اورنہ پیدا ہوں گے ،یہ حب رسول اورآپ ﷺ سے عشق ہی کا نشہ تھا کہ حضرت زید بن دثنہؓ کفار مکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ،جب انہیں شہید کرنے کے لئے حرم سے باہر لایا گیا تو ابوسفیان نے جو اس وقت مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے ان سے پوچھاکہ زید !کیا تم اس کو پسند کروگے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری جگہ ہوں اورہم تمہارے بدلہ ان کی گردن اڑادیں اورتم اپنے اہل وعیا ل میں عیش کرو ،حضرت زیدبن دثنہؓ نے عشق رسول کے نشہ میں سرشار ہوکر پوری خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا :(تم قتل کرنے کی بات کرتے ہو)اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر ہوں اورآپ ﷺ کو کانٹا بھی چپھ جائے تو میں اسے گوار ہ نہیں کرسکتا ،اس پر ابوسفیان 
نے کہا کہ میں نے لوگوں میں سے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسے محمدﷺ کے ساتھی ان سے کرتے ہیں ۔(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم:۳/۱۱۸۳)صلح حدیبیہ کے موقع پرحضرت عروہ بن مسعود ثقفیؓ مسلمانوں سے معاہدہ کرکے جب کفار مکہ کے پاس پہونچے تو صحابہ کی جانثاری اورآپ ﷺ سے حددرجہ عشق ومحبت کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اللہ کی قسم !میں دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس گیا ہوں ،میں نے قیصر وکسری اورنجاشی کا درباربھی دیکھاہے،بخدا!میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے مصاحبین اس کی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں جتنی صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں ،قسم بخدا!جب وہ ناک صاف کرتے ہیں تو اس کی ریزش صحابہ کرامؓ اپنی ہتھیلی میں لے لیتے ہیں ،اوراس کو اپنے چہرہ پر مل لیتے ہیں ،جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو وہ لوگ اس کی تعمیل میں دوڑ پڑتے ہیں ،جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضوکاپانی لینے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ،جب وہ کچھ کہنے لگتے ہیں تو ان کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں ،آپ ﷺ کی تعظیم میں وہ نظر اٹھاکرنہیں دیکھتے ہیں ۔(بخاری ،حدیث نمبر:۲۷۳۱)
نبی کی محبت جس پر ایمان کا دارومدار ہے آج امت میں اس حقیقی محبت کا فقدان ہے ،نبی کی محبت جو اتباع شریعت اورسنتوں کا اہتمام کرنے پر مجبور کرے ایسی محبت ہم میں ناپید ہے ،آپ ﷺ کی محبت کا دم بھرنے والے لوگ تو بہت ہیں ،عشق رسول کا دعوی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ؛لیکن وہ عشق جو اطاعت رسول پر ابھارے وہ ہم میں مفقود ہے ،اگر ہمارے اندر آپ ﷺسے سچی محبت ہوتی تو آپ ﷺ کی سنتوں کو پامال نہ کرتے ،ہم ایسے اعمال سے کنارہ کشی اختیارکرتے جو آپ ﷺ کو ناپسند ہیں،جب کہ واقعہ یہ ہے کہ میلاد النبی کے عنوان سے ہم بہت سے ایسے اعمال کرتے ہیں جس سے آپ ﷺ نے سختی سے منع کیا ہے ،آپ ﷺ نے کامل مسلمان اس شخص کو قراردیا ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ،(بخاری ،حدیث نمبر:۱۰)آپ ﷺ نے راستہ سے تکلیف دہ چیزکو ہٹانے کو جنت میں داخل ہونے کاسبب قرار دیا ہے ،(بخاری ،حدیث نمبر:۲۶۳۱)آپ ﷺ نے سایہ داردرخت کو کاٹنے سے منع فرمایا ہے ؛اس لئے کہ یہ دوسرے کے لئے باعث تکلیف ہوتاہے ، لیکن عمومایہ دیکھا گیا ہے کہ میلاد النبی کے جلسوں میں ارباب جلسہ ساونڈ باکس جلسہ گاہ سے باہر نصب کرتے ہیں ،جس کے نتیجے میں آواز گھر گھر میں اس قوت کے ساتھ پہونچتی ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، نہ کوئی آرام کرسکتاہے نہ کوئی یکسوئی سے اپنا کا م انجام د ے سکتاہے ،ظاہر ہے کہ اس سے لوگوں کی یکسوئی میں فرق آتاہے اور انہیں ایذا ء پہونچتی ہے ،دوسرے یہ کہ محلے میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری قومیں بھی بستی ہیں، مسلمانوں کے اس طرز عمل سے وہ اسلام اور مسلمانوں سے قریب ہونے کے بجائے ان سے متنفر ہوجاتے ہیں، اسلام کی صاف وشفاف ہدایا ت وتعلیمات کے متعلق غلط تاثرات ان کے ذہنوں میں راہ پاتے ہیں ۔اسی طرح بعض مقامات پر یہ دیکھنے میں آیاہے کہ میلاد النبی کے جلسے عام گزرگاہوں پرمنعقد کیے جاتے ہیں ،جس سے ٹریفک کے مسائل پید اہوتے ہیں ،اورلوگوں کو آمد ورفت میں زحمت ومشقت کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔حب رسول کے نام پر چند رسمی اعمال میں بے دریغ پیسے صرف کیے جاتے ہیں ،اوربے جا فضول خرچی اورحد درجہ اسراف سے کام لیا جاتاہے ،حالاں کہ اسراف گناہ کبیرہ ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے اسراف کرنے والوں کوشیطان کا بھائی قرار دیا ہے،آپ ﷺ نے اسراف سے سختی سے منع فرمایا ہے ،اسی طرح میلاد النبی کے جلسوں میں خطاب کرنے والے مقررین کرام کو لوگوں کی طرف سے تعریف وتوصیف اورواہ واہ کی فکر زیادہ دامن گیر ہوتی ہے ،عوامی اصلاح کی باتیں کم ہوتی ہیں ،اورزیادہ تر گفتگو نعروں اوربے جا شورشرابوں پر ہوتی ہے،مقررین کرام سیرت النبی کے ان جلسوں میں مسلکی اختلافات کی اساس پرعوام میں آپسی اختلاف وانتشار ،تعصب وتحزب اورگروہ بندی وتفرقہ بندی کی بیج بوتے ہیں ،سیرت النبی کے یہ جلسے جہاں سے اتحاد واتفاق اوراخوت وبھائی چارگی کا پیام عام ہونا چاہیے تھا آج یہ جلسے دوسرے مکاتب فکر کے خلاف بغض وعنا د اورعداوت ودشمنی کی مسموم فضا پھیلانے کا پلیٹ فارم بن چکے ہیں ،چنانچہ ان جلسوں میں دوسرے مکاتب فکر کے علماء کی توہین وتنقیص کی جاتی ہے ،ان کے لئے اہانت آمیز اورفتنہ خیز جملے استعمال کیے جاتے ہیں ،ظاہر ہے کہ عشق رسول کے نام پر کیے جانے والے ان خرافات کا دین وایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اوریہ پہلوفوری طورپر اصلاح طلب ہے ،عشق رسول کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے خودبھی واقف ہوں ،اورنئی نسل کو اس سے واقف کرانے کا اہتمام کریں، آپ ﷺ سے حقیقی محبت وعقیدت کا نقش ہم اپنے دلوں میں بٹھائیں ،نوجوان نسل کو اسلامی تہذیب وثقافت کے حوالہ سے غیور بنائیں ،اسوہ نبوی کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم مصمم کریں ،اپنے اخلاق کے بام ودر کو گلشن سیرت کے عطربیز پھولوں سے سجائیں،آپ ﷺ کی مٹی ہوئی سنتوں کااحیاء کریں ،مغربی وضع قطع اورچال ڈھال کو اختیار کرنے کے بجائے اسلامی وضع قطع کو اپنائیں، آپ ﷺ کی تعلیمات وہدایات سے برادران وطن کو واقف کرائیں،اگرہم اس کے لئے مضبوط لائحہ عمل تیارکرتے ہیں توپھرہماری زندگیوں میں خوشگوار اور صالح انقلاب آئے گا،ہرسو چھائی ہوئی ذلت ونکبت دور ہوگی، اورانشا ء اللہ شبابی سے کلیمی اورغلامی سے آقائی حاصل ہوگی ،اورہماری عظمت رفتہ اورکھویا ہوا وقار بحال ہوگا۔

Comments

Popular Posts